معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ اگرچہ حکومت کے اقدامات امید افزا ہیں، لیکن ان کی مکمل صلاحیت کو حاصل کرنے کے لیے کئی چیلنجز کا سامنا بھی ہوگا۔
معاشی ماہر ڈاکٹر ساجد امین نے کہا کہ حکومتیں سکیموں اور منصوبوں کے اعلانات تو کرتی ہیں لیکن ان پر عملدرآمد کے لیے اقدامات نہیں کرتیں جس وجہ سے ان کی کامیابی کے امکانات کم ہوتے ہیں۔ اگر حکومت چاہتی ہے کہ یہ منصوبہ کامیاب ہو تو انھیں درج ذیل اقدامات کو مدنظر رکھنا ہوگا۔
بینکوں اور ایکسچینج کمپنیوں کو ان مراعاتی سکیموں کی شرائط پر عمل کرنے کو یقینی بنانا ضروری ہے۔ سٹیٹ بینک کو فنڈز کے غلط استعمال کو روکنے کے لیے سخت نگرانی رکھنی ہو گی اور اس بات کو یقینی بنانا ہو گا کہ انعامات حقیقی اضافے پر منحصر ہوں۔
بینکوں اور ایکسچینج کمپنیوں کے درمیان ترسیلات زر کا مارکیٹ میں زیادہ سے زیادہ حصہ حاصل کرنے کے لیے مسابقت بڑھنے کا امکان ہے، جس کی وجہ سے چھوٹے ادارے مشکلات کا شکار ہو سکتے ہیں۔ سٹیٹ بینک کو اس مسابقتی ماحول کی نگرانی کرنی ہو گی تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ مسابقت صحت مند رہے اور تمام ادارے ان مراعات سے فائدہ اٹھا سکیں۔
ان اقدامات کی کامیابی کا انحصار عالمی معاشی حالات پر بھی ہے۔ خاص طور پر خلیجی ممالک کی معیشتوں میں کسی بھی قسم کی گراوٹ پاکستانی تارکین وطن کے لیے ترسیلات زر بھیجنے کی صلاحیت کو متاثر کر سکتی ہے۔ حکومت کو عالمی معاشی حالات میں تبدیلیوں کے لیے چوکنا اور ردعمل دینے کے لیے تیار رہنا ہو گا۔
ماہرین کے مطابق اگر حکومت کے یہ اقدامات کامیاب ہو جاتے ہیں تو پاکستان کی معیشت کو ایک مضبوط سہارا مل سکتا ہے۔ ترسیلات زر میں اضافے سے نہ صرف غیر ملکی زرِ مبادلہ کے ذخائر مستحکم ہوں گے بلکہ حکومت کو معیشت کی دیگر ضروریات کے لیے بھی مالی وسائل فراہم ہوں گے۔ ان اقدامات کا ایک اور اہم پہلو یہ بھی ہے کہ ان کے ذریعے بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کا ملک سے تعلق اور مضبوط ہو گا۔ جب تارکین وطن کو حکومت کی جانب سے مراعات اور مواقع فراہم کیے جاتے ہیں، تو وہ مزید جوش و خروش سے ملکی ترقی میں حصہ لیتے ہیں۔