واشنگٹن (جانب منزل نیوز) امریکی محکمہ خزانہ کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ملک کا مجموعی قومی قرض 31 ہزار ارب ڈالرز (31ٹریلین) سے تجاوز کر گیا ہے۔ امریکی کانگریس نے قانونی سازی کرکے امریکی حکومت کی قرض لینے کی صلاحیت محدود کرتے ہوئے اسے 31.4 ٹریلین ڈالرز تک محدود کر دیا تھا۔ اس صورتحال کے نتیجے میں امریکا کیلئے اپنی معیشت کو مستحکم رکھنے کیلئے مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
غیر ملکی میڈیا کی رپورٹ کے مطابق ایک بات تو طے ہے کہ امریکی معیشت کی حالت اُن چمکتی دمکتی پیش گوئیوں سے کہیں دور ہے جو کئی معروف اداروں اور ماہرین نے کی تھیں۔ اب قرضہ جات امریکا کی جی ڈی پی سے بھی بڑھ کر کھربوں ڈالرز تک جا پہنچے ہیں۔
گزشتہ سال یہ قرض صرف 23 کھرب ڈالرز تھا۔ 2020ء کے بعد اس میں جی ڈی پی کا 125 فیصد اضافہ ہوا اور 2021ء میں اس میں مزید 135 فیصد اضافہ ہوا۔ جس انداز سے امریکا کے قرضہ جات بڑھ رہے ہیں اسے دیکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ آنے والے برسوں میں قرضہ جات جی ڈی پی سے بڑھ جائیں گے۔
چائنیز اکیڈمی آف انٹرنیشنل ٹریڈ اینڈ اکنامک کو آپریشن کے عالمی مارکیٹ ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے ڈپٹی ڈائریکٹر بائی مینگ نے چائنیز جریدے کو بتایا ہے کہ ایک طرف، بائیڈن انتظامیہ مہنگائی کو کم کرنے کی کوششیں کر رہی ہے جس سے توقع ہے کہ امریکی معیشت اور روزگار کو نقصان ہوگا تو دوسری طرف اگر حکومت نے مزید قرضے لیکر معیشت کو متحرک رکھنے کی کوشش کی تو سرمایہ کاروں کو سرمایے کی لاگت کے مسائل اور دباؤ کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ نتیجتاً اقتصادی ترقی کے امکانات کم ہو جائیں گے اور امریکی حکومت کیلئے معاشی بحالی اور تیزی سے بڑھتی مہنگائی کو توازن میں رکھنا مشکل ہو جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ امریکی حکومت کی جانب سے قرضے لینے کی حد میں کئی مرتبہ اضافہ کیا جا چکا ہے، اس کا بڑی حد تک امریکا کی فنانشل مارکیٹس پر بھی اثر پڑے گا کیونکہ شرح سوُد میں اضافے کے منفی اثرات مرتب ہوں گے، یہ ایسا ہی ہے جیسے جلتی پر تیل چھڑکنا۔
انہوں نے کہا کہ دوسری اہم بات یہ ہے کہ 31 ٹریلین ڈالرز کے قرض کا مطلب یہ ہے کہ کانگریس کی ایپروپری ایشنز کمیٹی حکومت کیلئے مسائل پیدا کر سکتی ہے جس سے سیاسی لڑائی کا ماحول پیدا ہوگیا، اس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ حکومت بڑے وفاقی منصوبہ جات اور سروسز کی فراہمی میں شدید مشکلات سے دو چار ہو سکتی ہے، ملک کی داخلی اقتصادی قوت اور امریکا کا بیرونی دنیا پر اثر رسوخ کمزور ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ پچھلی مرتبہ جب امریکا کو جب اسی طرح کی صورتحال کا سامنا تھا تو حکومت تقریباً شٹ ڈاؤن (مفلوج) ہونے کے قریب پہنچ چکی تھی، اتنے بڑے قرضوں کی وجہ سے وفاقی حکومت کے بنیادی کام کاج کو بھی نقصان ہوگا۔ تیسری اہم بات یہ ہے کہ اتنا بھاری قرض اس تشویش میں اضافہ کرے گا کہ آیا امریکا یہ قرضہ جات واپس کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے یا نہیں، اس سے امریکا کی داخلی اور بیرونی پالیسیوں پر بھی اثرات مرتب ہوں گے اور ممکن ہے کہ دھیان ہٹانے کیلئے بے چینی پھیلانا یا جنگ شروع کرانے کی پالیسیاں اختیار کرنے کی صورت میں نظر آئیں۔