مصنف: ڈاکٹر سرور حسین
کمال کردے او بادشاہو
گفتگو انسانی شخصیت اور کردار کا آئینہ ہوتی ہے جس میں اس کا عکس صاف دیکھا جا سکتا ہے۔عربی زبان کا معقولہ ہے کہ "کچھ بولیے کہ آپ کی پہچان ہو سکے "۔ تجمل کلیم بڑے شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ بلا شبہ بڑے انسان بھی تھے جس کا اندازہ ان کی سوشل میڈیا پر موجود گفتگو سے لگایا جا سکتا ہے۔ فنکار کا فن اس کی زبان ہوتا ہے اور وہ اسی میں بولتا اچھا لگتا ہے کیونکہ یہی اس کے مقام و مرتبے کا تعین کرتا ہے۔ ہمارے معاشرے میں صاحب فن کو اپنی نمود کے لیے زمین کے نیچے جانا پڑتا ہے اور پھر زمین سے اوپر لوگ عظمتوں کے جھنڈے لہراتے باہر نکل آتے ہیں۔سچی بات ہے کہ تجمل کلیم کی شاعری کا جتنا چرچا ان کے جانے کے فوراً بعد سے اب تک ہو رہا ہے اگر سوشل میڈیا پر یہی ان کی زندگی میں ہوتا تو مجھ سمیت اور بہت سے لوگ ان کے بارے میں زیادہ بہتر اندا زسے جان سکتے۔ان کی پنجابی غزل نے جس طرح اپنا اعتبار اور وقار قائم کیا ہے وہ بہت جاندار اور پائیدار ہے۔ ان کی شاعری میں ہمارے عہد کے انفرادی اور اجتماعی دکھوں کازخم رستا ہوا محسوس ہوتا ہے۔شاعری پڑھتے ہوئے الفاظ کے اندر موجود کرب اور رتکلیف ان کی زبان سے چھلک چھلک جا تی تھی جس سے صاف پتا چلتا ہے کہ یہ محض قافیہ پیمائی اور سخن آرائی نہیں بلکہ جذبوں اور واردات کو لفظوں میں ڈھالا گیا ہے اور یہی سچی شاعری کی بنیادی نشانی ہے۔ لفظوں میں تاثیر فنی اخلاص کی متقاضی ہوتی ہے جو دراصل عطائے خداوندی کا راستہ ہموار کرتی ہے جو انھیں خاص طور پر ودیعت کیا گیا تھا۔ایک سچا فنکار حقیقتاً بے نیاز ہوتا ہے اور یہ بے نیازی ان کی گفتگو میں بھی دکھائی دی جس نے شاعری سے زیادہ متاثر کیا۔ سوشل میڈیا پر بستر علالت پر کیا گیا ان کے انٹرویو میں بہت اہم باتیں ہوئیں جس میں ان کا پنجابی زبان کی سادگی سے معمور لہجہ اور بناوٹی سجاوٹ سے گریز سیدھی سادھی باتوں میں بہت گہری معنویت تھی ۔پوچھا گیا کہ موت کے بارے میں کیا خیال تو انھوں نے چونکا دینےو الا جواب دیا جو شاید اس سے پہلے کبھی نہیں سنا کہ یہ اللہ کا بہت بڑا انعام ہے کہ جب آپ کا جسم اعصابی طور پر توانا نہیں رہتا تو وہ اسے اپنے پاس بلا کر تمام تر تکلیفوں سے نجات دے دیتا ہے۔ سوچیں کہ اگر موت نہ ہوتی تو لاچار اور بے بس انسان کا کیا حال ہوتا۔بلاشبہ موت کے حوالےسے ایسا جواب کوئی بڑا فنکار ہی دے سکتا ہے جس نے زندگی کی اذیتوں کو بہت قریب سے محسوس کر کے اسے لفظ بھی دئیے ہوں۔ اچھے دوست کی نشانی پوچھی گئی تو بتایا کہ یہ اسے حال بتانا نہ پڑے وہ چہرہ دیکھ کر پہچان لے۔شاید دوستی کے رشتے کی اس سے بہتر تعریف نہیں کی جاسکتی۔محبت کا پوچھا گیا تو کہا کہ یہ وقت کا ضیاع ہے جتنا چاہے کر لیا جائے۔میر انہیں خیال کہ مادی اور جسمانی محبت کی حقیقت کو کسی مکمل اور بھرپور شاعر نے دریافت کر کے اس کا یوں برملا اظہار بھی کیا ہو۔ پھر کہا کہ وقت کا سب سے اچھاستعمال صرف محنت ہے جو میری دانست میں وقت کے تناظر میں دیا جانےو الا بہترین جواب ہو سکتا ہے۔شاعر کی پہچان کے حوالے سے بہت آسانی سے بہت پتے کی بات کی کہ شاعر دو ہی طرح کے ہوتے ہیں ایک وہ جو قافیے کے پیچھے چلتے ہیں اور دوسرے وہ جوقافیے کو اپنے پیچھے آنے پر مجبور کرتے ہیں اور دراصل یہی شاعر ہوتے ہیں۔ ایک سوال پرکہنے لگے کہ میں خود تجمل کلیم سے متاثر ہوں جس کی اچھی بات یہ لگتی ہے کہ اس کے دوست آج بھی وہی ہیں جو پچاس سال پہلے تھے اور دوستی سے بڑا کوئی رشتہ ہے ہی نہیں۔اس سے اگلا جملہ اس سے زیادہ توجہ طلب تھا کہ دوستوں کی تعداد میں نہ ہی کوئی اضافہ کیا اور نہ ہی کمی۔یعنی اب آس پاس محبت کرنےو الوں کا ایک ہجوم تھا لیکن بتایا کہ دوست دراصل وہی ہوتا ہے جو آپ کے معاشرے میں مقام و مرتبہ بننے سے پہلے ہو بعد والے تو بس آپ کی فن یا کمال کو دیکھ کر قریب آتے ہیں اور پہلے والےاس کے بغیر ہی آپ کے قدر دان ہوتےہیں اور انھیں ہی دوست کہا جا سکتا ہے۔ایک بری عادت کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ تجمل کلیم اپنی مرضی کا مالک ہے بس یہی اس کی برائی ہے ۔کیسے غیر محسوس طریقے سے حقیقی فنکار کی پہچان بتائی کہ دراصل وہ فطرت اور مزاج کا ہی پابند ہوتا ہے ۔ خوشی کا لمحہ کتاب چھپنے کا وقت تھا جسے ہاتھ میں تھام کر میں نے کہا کہ میں کامیاب ہو گیا۔ایک اور بہت قیمتی بات کی کہ شاعری میں مقابلے بازی کا قائل نہیں ہوں کہ فن خالصتاً قدرت کی عطا ہے اور یہ بقدر ظرف ہی ملتا ہے۔ہلکی شاعری اور شاعروں کی پذیرائی اور مقبولیت پر سوال کا بھی عمدہ جواب دیا کہ جیسے سچے فنکار کم ہوتے ہیں اسی طرح سچے قدردان بھی کم ہوتے ہیں کہ ہر شخص سخن فہم نہیں ہوتا۔ایک باکمال شاعر ہوتے ہوئے بھی یہ کہا کہ شہرت کے لیے مشاعرے پڑھنے کی کبھی حسرت نہیں رکھی۔ سوال کرنےو الا کسی بات پر گلہ مند جواب کا متمنی تھا اسی لیے اس نے پوچھا کہ حالات کے بارے میں کچھ بتائیے کہ کیسے ہیں تو جواب دیا کہ میں نے ضرورت سے زیادہ کبھی مانگا ہی نہیں اور کرنا بھی کیا ہے۔پنجابی کے نمائندہ شاعر ہونے کے باوجود حکومتی اعزاز کے نہ ملنے کا کہا گیا تو کمال بے نیازی سے جواب دیا کہ یہ مجھے اس لیے نہیں ملا کہ مجھے اس کا شوق ہی نہیں۔ آج کے دور میں ایسا جواب واقعی سچا فنکار ہی دے سکتا ہے جس کا فن اور اس کو سراہنے والے ہی اس کے لیے اعزاز و اکرام ہوں۔ایک ہی نشست میں زندگی کی اتنی حقیقتوں کے اتنے مضبوط، معنویت سے معمور اور ادب عالیہ میں ضرب المثل بننے کی صلاحیت رکھنے والے جملوں پر یہی کہا جا سکتا ہے کہ "کمال کردے او بادشاہو"۔
mailto:sarwar592@gmail.com