اسلام آباد : پنجاب اور خیبرپختونخوا میں انتخابات ملتوی ہونے کے خلاف پی ٹی آئی کی درخواست پر سپریم کورٹ میں سماعت مکمل ہونے کے بعد فیصلہ محفوظ کر لیا گیا ہے، جو کل سنایا جائے گا۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے دوران سماعت ریمارکس دیے کہ عدالت ہی انتخابات کی تاریخ آگے بڑھاسکتی ہے، لوگ من پسند ججوں سے فیصلہ کرانا چاہتے ہیں۔
جسٹس امین الدین اور جسٹس جمال خان مندوخیل کے 5 رکنی بینچ سے علیحدہ ہونے کے بعد چیف جسٹس پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر پر مشتمل تین رکنی بینچ نے پی ٹی آئی کی درخواست پر سماعت کی۔
اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان، وکیل الیکشن کمیشن سجیل سواتی اور عرفان قادر، پی ٹی آئی کی جانب سے وکیل علی ظفر، پیپلزپارٹی کے وکیل فاروق ایچ نائیک، سیکریٹری دفاع، سیکریٹری الیکشن کمیشن اور ڈپٹی سیکریٹری داخلہ عدالت میں پیش ہوئے۔
سماعت کے آغاز پر فاروق ایچ نائیک روسٹرم پر آئے جس پر چیف جسٹس نے ان سے استفسار کیا کہ کیا آپ نے بائیکاٹ ختم کردیا؟ فاروق ایچ نائیک نے جواب دیا کہ میں نے کوئی بائیکاٹ نہیں کیا۔چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ پھر کس نے بائیکاٹ کیا؟
جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ آپ کیسے ایک طرف بائیکاٹ اور دوسری طرف سماعت کا حصہ بھی بن رہے ہیں؟ فاروق ایچ نائیک نے جواب دیا کہ بینچ کے دائرہ اختیار پر تحفظات ہیں۔
جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ گزشتہ 48 گھنٹے سے میڈیا کہہ رہا ہے کہ اعلامیہ کے مطابق سیاسی جماعتیں بینچ پر عدم اعتماد کر رہی ہیں، ہم پر اعتماد نہیں ہے تو دلائل کیسے دے سکتے ہیں، اگر اعلامیہ واپس لیا ہے تو آپ کو سن لیتے ہیں۔
چیف جسٹس نے فاروق ایچ نائیک سے مکالمہ کیا کہ کیا آپ کارروائی کا حصہ بننا چاہتے ہیں، فاروق ایچ نائیک نے جواب دیا کہ جی کارروائی کا حصہ ہیں، ہم نے تو بائیکاٹ کیا ہی نہیں تھا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اخبار میں تو کچھ اور لکھا تھا۔ جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ آپ ایک طرف بینچ پر اعتراض کرتے ہیں دوسری طرف کارروائی کا حصہ بھی بنتے ہیں، حکومتی اتحاد اجلاس کا اعلامیہ پڑھ کر سنائیں، جو زبان اس میں استعمال کی گئی ہے۔
کامران مرتضیٰ نے کہا کہ ہمارے تحفظات بینچ پر ہیں۔ فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ ہمیں درخواستوں کے قابل سماعت ہونے پر تحفظات ہیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اگر بائیکاٹ کرنا ہے تو عدالتی کاروائی کا حصہ نہ بنیں، بائیکاٹ نہیں کیا تو لکھ کر دیں۔ اس پر مسلم لیگ (ن) کی جانب سے وکیل اکرم شیخ نے کہا کہ وکالت نامہ واپس لینے تک وکیل دلائل دے سکتے ہیں۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ وکالت نامہ دینے والوں نے ہی عدم اعتماد کیا ہے، اس پر اکرم شیخ نے کہا کہ وکیلوں کا عدالت آنا ہی اعتماد ظاہر کرتا ہے۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اٹارنی جنرل صاحب آپ کو کیا ہدایت ملی ہیں، اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ حکومت عدالت کا بائیکاٹ نہیں کرسکتی۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ سنجیدہ اٹارنی جنرل سے ایسی ہی توقع تھی، اٹارنی جنرل نے کہا کہ حکومت آئین کے مطابق چلتی ہے۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ درخواست میں الیکشن کمیشن کا فیصلہ کالعدم قرار دینے کی استدعا ہے، صدر کو خیبرپختونخوا میں تاریخ دینے کی بھی استدعا کی گئی ہے، درخواست کی بنیاد یکم مارچ کا عدالتی فیصلہ ہے، فیصلے میں عدالت نے پنجاب کے لیے صدر اور خیبرپختونخوا کے لیے گورنر کو تاریخ دینے کا کہا تھا، گورنر خیبرپختونخوا کے نے درخواستیں دائر ہونے تک کوئی تاریخ نہیں دی تھی۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ سوال اٹھایا تھا کہ الیکشن کمیشن 8 اکتوبر کی تاریخ کیسے دے سکتا ہے؟ قانون کسی کو الیکشن ملتوی کرنے کا اختیار نہیں دیتا، عدالت ہی الیکشن کی تاریخ آگے بڑھا سکتی ہے، 1988 میں بھی عدالت کے حکم پر انتخابات آگے بڑھائے گئے تھے، عدالت زمینی حقائق کا جائزہ لے کر حکم جاری کرتی ہے، جس حکم نامے کا ذکر کرر ہے ہیں اس پر عمل ہو چکا ہے۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ اصل معاملہ الیکشن کمیشن کے حکم نامے کا ہے، عدالتی حکم الیکشن کمیشن پر لازم تھا، الیکشن کمیشن کا حکم برقرار رہا تو باقی استدعائیں ختم ہو جائیں گی۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ پہلے راؤنڈ میں 9 رکنی بینچ نے مقدمہ سنا تھا، 21 فروری کو سماعت کا حکم نامہ آیا، 2 ججز کے اختلافات کی تفصیلات سامنے آ چکی ہیں، 2 ججز نے پہلے دن درخواستیں خارج کر دی تھیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ایک جج نے درخواست خارج کی تھی، جسٹس اطہر من اللہ نے شاید نوٹ میں درخواست خارج کرنے کا نہیں لکھا۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ جسٹس یحییٰ آفریدی نے جسٹس اطہر من اللہ سے اتفاق کیا تھا، اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہم آپ کا نقطہ نظر سمجھ گئے ہیں۔
جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس جمال مندوخیل کے تفصیلی نوٹ کتنے رکنی بینچ کے تھے؟ کتنے رکنی بینچ نے فیصلہ دیا تھا؟ 27 فروری کو 9 رکنی بینچ نے ازسرنو تشکیل کیلئے معاملہ چیف جسٹس کو بھیجا تھا۔