پاکستان میں شروع دن سے رول آف لاء کی کمی ہے جس کی وجہ سے پاکستان غربت کی دلدل میں ایسا دھنسا ہوا ہے کہ 70 سال گزر جانے کے باوجود نکل نہیں سکا یہاں پر یہ بات لکھنا ضروری ہے کہ غریب صرف عوام ہی ہے سیاستدان اشرافیہ صحافی میڈیا مالکان سب ارب پتی ہیں اور پاکستان کو مقروض کرنے میں صرف ان چند افراد کا ہاتھ ہے مگر سزا 22 کروڑ عوام کو مل رہی ہے آج کل سوشل میڈیا پر پاکستان ڈیفالٹ ہونے کے قریب ہے کی خبریں گردش کر رہی ہیں اور چند یوٹیوبرز جو کسی پارٹی کی نمائندگی کر رہے ہیں وہ موجودہ حکومت کو اس کا ذمہ دار ٹھہرا رہے ہیں سب سے پہلے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ ڈیفالٹ ہے کیا اور ملک ڈیفالٹ کیسے ہوتا ہے پاکستان کی اگر بات کی جاے تو پاکستان ہمیشہimf کا غلام رہا ہے اور ملک کے چند خاندان جو پاکستان کی سیاست کالبادہ اوڑھ کر پاکستان کا بیڑہ غرق کر رہے ہیں انہوں نے ملک کو چلانے کے لیے ہمیشہ قرضوں کا سہارا لیا اور وہ قرضے اپنی عیاشیوں پر خرچ کرتے رہے جس کی وجہ سے قرضوں میں اضافہ ہوتا چلا گیا اور قرض کی ادائیگی اور شرح َسود بڑھتی گئی جو کہ ملکی خزانے پر بوجھ کی وجہ بنی جس سے پاکستان میں مہنگائی بےروزگاری اور غربت میں اضافہ ہوتا رہا اسی دوران تجربہ کاروں نے نیا تجربہ کیا اور عمران خان کو حکومت سونپ دی گئی جس نے اپنے دور حکومت میں سب سے زیادہ قرضوں پر انحصار کیا ایک طرف غلامی سے آزادی کے نعروں کی آوازیں گونجتی رہیں اور دوسری جانب قرضوں پر قرضے لے کر عیاشیاں ہوتی رہی یہاں تک کرونا میں بہت سے ممالک نے پاکستان کو اربوں ڈالرز دیے اور عالمی مارکیٹ میں پیٹرول کی قیمتوں میں کمی کے باوجود عوام مہنگا پیٹرول خریدتے رہے مگر پھر بھی ناتجربہ دان سیاستدان صادق اور آمین ہونے کے باوجود حالات پہ قابو نہ پا سکے اور تمام کھلاڑی کپتان کی موجودگی میں لاکھوں کی دیہاڑیاں لگاتے رہے مگر اس وقت اسٹیبلشمنٹ اور حکومت ایک پیج پر ہونے کی وجہ سے میڈیا کو قرضوں کے اوپر بات کرنے سے روکے رکھا گیا میری تحقیق کے مطابق پاکستان کی سابقہ تمام حکومتوں نے 70 سالوں میں جتنا قرضہ لیا تھا اس سے زیادہ عمران خان نے اپنے 4 سالہ دور میں لے کر نیا پاکستان بنانے کی ناکام کوشش کی گئی کیونکہ اب تو عمران خان خود بھی اس بات کی تصدیق کر چکے ہیں کہ مجھ سے بہت سی غلطیاں ہوئی ہیں جس میں وہ طاقتور کو قا نون کے تابع نہ کر سکے ایکسٹینشن کے امیدوار کو انکار نہ کر سکے کرپشن کرنے والوں کو نہ روک سکے.مافیاز کے خلاف کارروائی نہ کر سکے پراپرٹی ڈیلرز کو سبسڈی دینے کی غلطی کر بیٹھے مگر شاید یہ بتانا بھول گئے تھے کہ سب سے زیادہ قرضے لے کر ہڑپ کرنے کہ غلطی بھی کی تھی جس کی وجہ سے آج پاکستان ڈیفالٹ کے قریب پہنچ گیا ہے اور اس کی سزا آج نون لیگ کی حکومت بھگت رہی ہے اس میں بھی کوئی شک نہیں ہے کہ غلطی کرنے والوں نے اپنی غلطی کا اعتراف کرتے ہوئے سیاست سے الگ ہونے کا فیصلہ کر لیا ہے مگر عوام اصل حقائق سے بے خبر ہے کیونکہ پھر بھی عمران خان کی شہرت کو بچانے کے لیے اس کو حکومت سے ہٹا دیا گیا تاکہ pdm کی حکومت بنوا کر اس تباہ حال معشیت کا ذمہ دار آنے والی حکومت پر ڈال دیا جائے شاہد یہی وجہ تھی کی میاں نواز شریف نے اس حالات میں حکومت سمبھالنے سے انکار کر دیا تھا کیونکہ انہیں اس بات کی خبر تھی کہ اس نازک دور میں حکومت کے لیے معشیت کو سنبھالنا مشکل کام ہے مگر خادم اعلی نے حکومت سمبھالی اور پاکستان کو اس نازک دور سے نکالنے کے لیے ریاست بچانے کے لیے اپنی سیاست قربان کر کے ساری ذمہ داری اپنے اوپر لے کر پاکستان کو ڈیفالٹ ہونے سے پچایا مگر پاکستان میں بڑھتی ہوئی مہنگائی اور بیروزگاری کا زمہ دار مسلم لیگ ن کو ٹھہرایا جا رہا ہے آج َاگر پاکستان ڈیفالٹ ہوئے کے قریب ہے تو اس کی وجہ سابقہ حکومت کے سب سے زیادہ لیے گئے قرضوں کی وجہ ہے جس کے اوپر شرح سود زیادہ ہونے کی وجہ سے پاکستان کی معیشت سمبل نہیں پا رہی ہے ہم سب کو سوچنا ہو گا کہ ہم اپنے ملک پاکستان کو ترقی کی راہ پر کیسے گامزن کر سکتے ہیں اس کے لیے اشرافیہ بیوروکریٹ اور سیاستدانوں کو دی جانے والی مراعات وی پی ایی پروٹوکول کا خاتمہ ہی ملک کو بچا سکتا ہے ورنہ اربوں ڈالرز ماہانہ اس شہانہ پروٹوکول پر خرچ ہوتے رہے گے اور ملک ترقی کی بجائے قرضوں کی دلدل میں دھنستا جائے گا جب تک پاکستان میں کرپشن کا خاتمہ نہ ہوا رول آف لاء قائم نہ ہوا روزگار کے مواقع فراہم نہ کیے گئے سرکاری ملازمین عوام کے خادم بن کر کام نہ کریں تب تک پاکستان کی ترقی کا سفر شروع نہیں ہو سکتا آخری سطور پر یہ لکھنا بھی ضروری ہے کہ اگر سرکاری افسران کو ملنے والی مراعات پر بھی غور کیا جا سکے جیسا کہ فری پیٹرول فری بجلی بچوں کی فری تعلیم فری رہاش فری گاڑیاں اور وی آئی پیز پروٹوکول اگر یہ سب ختم ہو جاے تو ہم بہت جلد قرضوں کے بوجھ سے نکل کر پاکستان کی ترقی کا سفر شروع کر سکتے ہیں…