ڈاکٹر سرور حسین
sarwar592@gmail.com
ایک ہی ہفتے میں دو ملتی جلتی خبروں کے اندر بہت مماثلت اور ڈرامائی تعلق دکھائی د ے رہا ہے۔ ایک سب مارین آب دوز جو دنیا کے امیر ترین سیاحوں کو سمندر کی ہزاروں میٹر گہرائی میں ۱۹۱۲ میں ایک حادثے کا شکار ہو جانے والے بحری جہاز ٹائیٹینک کا ملبہ دکھانے کے لیے لے جاتی ہے جس میں اس بار وطن عزیز کے بہت معروف اور اچھی شہرت رکھنے والے کاروباری گروپ کے دو افراد بھی موجودتھے۔ جن کی آب دوز کا سمندر کی ۳۸۰۰ میٹر گہرائی میں جانے کے بعد زمین سے رابطہ منقطع ہو گیا اور رات آخری خبریں آنے تک اس کے مسافروں کے حادثے کا شکار ہوجانے کی اطلاع دی جا رہی ہے۔امریکہ اور کینیڈا کے حکام آبدوز کو تلاش کرنے میں مسلسل مصروف ہیں اور آخری خبریں آنے تک اس آبدوز کے اپنی منزل سے ۱۲۰۰میٹر دور حادثے کا شکار ہو جانے کی خبریں گردش میں ہیں ۔یہ بات دلچسپی سے خالی نہیں ہے کہ اس ایک صدی سے بھی زائد عرصہ سے ڈوبے ہوئے جہاز کے ملبے کو دیکھنے کے لیے آبدوز کی ٹکٹ کے اخراجات ایک فرد کے لیے ڈھائی لاکھ ڈالر ہیں جو پاکستانی روپوں میں کم و بیش ساڑھے سات کروڑ روپے بنتے ہیں اوران دو افراد کے کل ملا کر صرف سمندری سفر کے ٹکٹ پندرہ کروڑ روپے بنتے ہیں باقی کے سفری اخراجات کے لگژری ہونے کا آپ صرف تصور ہی کر سکتے ہیں۔
دوسری طرف ۸ جون کو گجرات، منڈی بہاؤالدین کے دیہی علاقوں سے تعلق رکھنے والے خاندان کے بہتر مستقبل کے لیے اپنی جمع پونجی بیچ کر سمندروں میں بے نام کشتیوں کے مسافر بنے اور لیبیا سے اٹلی کی طرف روانہ ہوئے اور کہیں رزق خاک ہوتے ہوتے رزق آب ہو گئے ۔خود تو پانی کی نذر ہو گئے اور اب اپنے پیچھے رہ جانے والوں کی آنکھوں کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے سمندر کر گئے۔ تقریباً سو فٹ لمبی کشتی میں ۸۰۰ کے قریب افراد جانوروں سے بھی بدتر حالت میں ٹھونسے گئے جن میں خواتین اور بچے بھی شامل تھے۔پاکستانیوں کی خصوصی قدر کی بدولت انھیں سب سے نچلے حصے میں بند کیا گیا تھا جن کے پاس ضرورت کا پانی بھی وافر موجود نہیں تھا۔ کشتی کے ڈوبنے کی وجہ فنی خرابی کےساتھ ساتھ مسافروں کی زیادہ تعداد بھی بتائی جا رہی ہے۔ یہ بھی شنید ہے کہ کشتی کے نچلے حصے میں موجود چھ افراد ہوا اور پانی کی عدم دستیابی کے سبب کشتی کے اندر ہی زندگی کی بازی ہار گئے تھے۔ اس حادثے میں تین سو سے زائد پاکستانیوں کی ہلاکت بتائی جا رہی ہے جن میں سے بیشتر کا تعلق دیہی علاقوں اور کشمیر سے بتایا جا رہا ہےجسے بلا شبہ قومی سانحہ قرار دیا جانا چاہیے ۔یہ تین سو افراد کی موت نہیں تین سو خاندانوں کی موت ہے۔میڈیا پہ دکھائی جانےو الی خبروں میں ان کے دکھائے گئے گھر بار اور ان کے افراد کی آنسوؤں سے بھری آنکھیں چیخ چیخ کر کہہ رہی ہیں کہ ہمیں کچھ نہیں چاہیے صرف ہمیں ہمارے پیارے واپس کر دو جنھیں خود ہی اپنے ہاتھوں سے ان جلاد وں اور انسانی سمگلروں کے حوالے اپنی جمع پونجی بیچ کر حوالے کیا تھا۔کسی کی بیوی اور ماں نے اپنے باقی ماندہ زیور بیچے، کسی نے زمین بیچی ، کسی نے قرض اٹھایا ۔کسی ایک فرد کا خرچ بھی ۲۵ لاکھ سے کم نہیں تھا جو بظاہر ۲۵ ہزار خرچ کرنے کے بھی قابل نہیں دکھائی دے رہے تھے۔حکومت کی طرف سے رسمی کاروائی کے لیے وہی روایتی پکڑ دھکڑ بھی شروع کر دی گئی ہے جو دراصل پکڑنےو الوں کے لیے بیٹھے بٹھائے سونے کی چڑیا کی صورت بن گئے ہیں۔نہ تو یہ کام کوئی آج نیا آغاز ہوا ہے اور نہ ہی اس طرح کا حادثہ پہلے بار ہو رہا ہے۔ترکی میں اپنے سفر کے دوران مجھے کچھ پاکستانی نوجوانوں سے ملنے کا موقع ملا جو کچھ اسی طرح گرتے پڑتے ترکی پہنچے تھے۔ ان کے پاس نہ تو وہاں رہنے کے سفری دستاویزات تھے اور نہ ہی واپسی کے لیے کوئی جائزطریقہٴ کار۔ ان سے سفر کی داستان سن کر سچی بات ہے کہ میں تو دنگ رہ گیا کہ یہ لوگ کیسے اپنے اپنے گھروں سے ان بے رحم انسانی سمگلروں کے ہاتھوں لاکھوں روپیہ خرچ کر کے نکل پڑتے ہیں۔بسوں پر کوئٹہ کے راستے ایران میں داخل کروایا جاتا ہے وہاں سے اگلے انسانیت سوز بروکروں کے ہاتھوں فروخت کیے جاتے ہیں جو انھیں جنگلوں، ندیوں، دریاؤں کے خطرناک راستوں سے گزارنے کے ساتھ ساتھ اگلے لوگوں کے حوالے کرتے چلے جاتے ہیں۔ سب اپنا اپنا حصہ لے چکے ہوتے ہیں اس لیے انہیں نہ تو ان سے کوئی انسانی بنیادوں پر ہمدردی ہوتی ہے اور نہ ہی بخیر و عافیت منزل تک پہنچانے کی فکر۔ بس ہر مرحلے پر انھیں گلے سے اتارنے جیسی صورت حال ہی ہوتی ہے۔ اگر یہ دونوں حادثات نہ ہوتے تو شاید کہیں کسی کو یہ خبر بھی نہ ہوتی کہ پاکستان میں ایسے لوگ بھی ہیں جو سمندروں کی گہرائی میں موجود کسی ملبے کو دیکھنے کے لیے بھی کروڑوں روپیہ خرچ کر سکتے ہیں اور دوسری طرف ایسے لوگ بھی ہیں جو مال و متاع اور جمع پونجی قرض سمیت لے کر اپنے پیاروں کو موت کے منہ میں دھکیل دیتے ہیں۔ظاہر ہے کہ دونوں طرف حادثات کے اندیشوں کا گمان موجود نہیں ہو گا ۔ جانے والے تو چلے جاتے ہیں لیکن پیچھے رہ جانے والے ان کی یاد میں روز اذیتوں سے گزرتے ہیں ۔پیسے والوں پر حرف اعتراض اٹھانے کی بجائے کوشش کیجیے کہ آپ کو عمل خیر کا موقع ملا ہے تو کر گزرئیے کہ اور دوسری طرف کم وسائل میں گزارا کر لیجئے لیکن اپنے پیاروں کو زندگی کے منہ زور طوفانوں کی طرف مت دھکیلیں۔ حکومت تو حادثات کے بعد ہی حرکت میں آتی ہے جس پر اسے “کوئی ” کہتے ہوئے بحیثیت مجموعی یہی شعر نذر کیا جا سکتا ہے :۔
کوئی روکے ذرا دستِ اجل کو ہمارے لوگ مرتے جا رہے ہیں