محمد فاروق چوہان
متحدہ عرب امارات اور پاکستان کے تعلقات دیرپا اور مثالی ہیں۔ دونوں برادر اسلامی ملکوں کی دوستی بھی لاثانی اور پرانی ہے جس میں وقت گزرنے کے ساتھ بہتری اور مضبوطی آرہی ہے۔ سعودی عرب، اورترکی کی طرح متحدہ عرب امارات نے بھی ہر مشکل موڑ پر پاکستان کی معاشی معاونت کی ہے جو کہ قابل تحسین امر ہے۔ ابھی حال ہی میں سعودی عرب کے دو ارب ڈالر کے بعد امارات نے ایک ارب ڈالر فراہم کر کے ہمیں مشکل معاشی صورتحال سے نکالا ہے۔ مجھے چند روز قبل دبئی سے بیرون ملک پاکستانیوں کی آواز اور کتاب کلچر سے محبت کرنے والے ہمارے کرم فرما سرمد خان نے فون پر رابطہ کیا اور پاکستانی ادبی لٹریچر کے عرب ممالک سمیت دنیا بھر میں فروغ کے لیے تفصیلی تبادلہ خیال بھی کیا۔پاکستان کی محبت سے سر شار اور وطن کے لیے کچھ کر گزرنے کا جذبہ رکھنے والے سرمد خان بنیادی طور پر چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ ہیں۔
برطانیہ اور عرب امارات کے اردو پڑھنے اور بولنے والے حلقوں میں خاصے مقبول ہیں۔ وہ پاکستان کے ایسے ہونہار فرزند ہیں کہ جنھیں علم اور کتاب کا سفیر کہا جا سکتا ہے۔ پاکستان سمیت عرب اور یورپی ملکوں میں جہاں کہیں کتاب میلے ہوتے ہیں وہ وہاں پہنچ جاتے ہیں۔ وہ نہ صرف اچھی کتابوں کی نشاندھی کرتے ہیں بلکہ خود بھی کتابیں پڑھتے ہیں اور بڑے پیمانے پر اردو کتب خرید کر لوگوں میں تقسیم کرتے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ ڈیجیٹل میڈیا کے آنے کے بعد پاکستان، عرب ممالک سمیت عالمی سطح پر کتب بینی کے رحجان مین نمایاں کمی آئی ہے۔ نئی نسل کتاب سے دور ہوتی جارہی ہے۔ چونکہ پاکستان میں پہلے ہی شرح خواندگی افسوس ناک حد تک کم ہے اس لیے یہاں اس کے اثرات زیادہ مرتب ہوئے ہیں۔
حکومت پاکستان کو اس کی فکر کرنی چاہیے اور پاکستانی سوسائٹی میں مثبت اور تعمیری روایات کو آگے بڑھانے کے لیے اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ ان کی خواہش ہے کہ اردو زبان دنیابھر میں ترقی کرے اور اردو ادب پھلے پھولے۔وہ اس وقت عرب امارات اور برطانیہ میں اہم شعبوں کی ممتاز شخصیات کی اردو میں بائیو گرافی شائع کروا نے کا اہتمام کر رہے ہیں تاکہ ان ملکوں کی ترقی اور تجربات سے پاکستانی قوم کو روشناس کرایا جا ئے۔ پاکستانی وزارت تعلیم اور تحقیق کے اعلی اداروں کو اس سلسلہ میں سرمد خان کے شانہ بشانہ کام کر نا چاہیے۔
انھوں نے مجھے بتایا کہ پاکستان میں شائع ہونے والی کتب کومشرق وسطی اور یورپ کے تعلیمی اداروں اور لائبریریوں میں پہنچانا ان کی زندگی کا مشن ہے۔ اس کے لیے وہ کوشش کر رہے ہیں کہ اہم اردو ادب،تاریخ اور ناول کی کتب بھی انگلش اور عربی زبانوں میں ترجمہ کر کے شائع کروائی جائیں۔ اس حوالے سے عرب امارات، برطانیہ اور پاکستان میں کام شروع کر دیا گیا ہے۔
سرمد خان جیسے لوگ ہمارے ماتھے کا جھومر ہیں۔ حکومت پاکستان کو ایسے محب وطن پاکستانیوں کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے۔ میرے خیال میں شہباز شریف حکومت کو سرمد خان کی علم اور کتاب دوستی کے اعتراف اور ان کی قومی خدمات پر انھیں تمغہ حسن کارکردگی سے نوازنا چاہیے اس سے بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کا سر فخر سے بلند ہو گا اور وہ ملک و قوم کا بہترین اثاثہ ثابت ہوں گے۔
سرمد خان کی یہ کاوشیں قابل قدر ہیں کہ وہ امن اور کتب کے فروغ کے زریعے مثبت اور تعمیری تبدیلی کے خواہاں ہیں۔ یہ ایک اچھی سوچ یے کہ ہماری نوجوان نسل کا رشتہ دوبارہ قلم اور کتاب سے جوڑا جائے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ ہماری نئی نسل کو اپنے حقیقی ہیروز کا علم نہیں ہے۔ انٹرنیٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے غلط اور بے جا استعمال نے انھیں اپنی تاریخ سے دور کر دیا ہے۔ ہاں! تو میں یو اے ای اور پاکستان کے تعلقات کا زکر کر رہا تھا۔
متحدہ عرب امارات کو معرض وجود میں ائے اکیاون سال ہو چکے ہیں۔ انیس سو اکہتر میں سات ریاستوں کا اتحاد ہوا جسے متحدہ عرب امارات کا نام دیا گیا۔سب سے پہلے پاکستان نے ہی یو اے ای کو تسلیم کیا تھا۔یہ ایک حقیقت ہے کہ ماضی میں شیخ زید النہیان نے وطن عزیز کے ساتھ بہترین اور معیاری تعلقات قائم کیے تھے جنھیں آج بھی ان کے جانشین محمد بن زید النہیان اعلی بنیادوں پر استوار کیے ہوئے ہیں اور مختلف بین الاقوامی فورمز پر ایک دوسرے کے ساتھ خاصی ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔
پاکستان اور عرب امارات کے درمیان مشترکہ ورثے اور کثیر الجہتی تعاون پر مبنی بہترین برادرانہ تعلقات قائم ہیں۔ پاکستان مشرق وسطی کو افغانستان اور وسط ایشیا سے ملانے کے لیے تیار ہے۔ ہمارے عرب امارات کے ساتھ گزشتہ پانچ دہائیوں سے قریبی برادرانہ تعلقات ہیں جو مشترکہ اقدار اور ثقافت سے جڑے ہوئے ہیں۔ یو اے ای میں بسنے والے پاکستانی ایک قیمتی اثاثہ ہیں جو دونوں ممالک کی ترقی میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ دونوں ملکوں کے درمیان توانائی، تجارتی اور صنعتی منصوبوں پر کام جاری ہے۔
عرب امارات مشرق وسطی میں پاکستان کا سب سے بڑا شراکت دار اور سرمایہ کاری کا زریعہ ہے۔ دونوں ملکوں کے درمیان آٹھ بلین ڈالر کی ہاہمی تجارت اور مضبوط دوستی کے پیچھے سرمد خان جیسے مخلص پاکستانیوں کا بھی ہاتھ ہے جو ہر لمحے پاکستان کی ترقی اور سربلندی کے لیے کوشاں رہتے ہیں۔