پاکستان اس وقت اپنی تاریخ کی بدترین معاشی ابتری سے گزر رہا ہے اور اس کے بدخواہ پروپیگنڈہ کر رہے ہیں کہ کسی وقت بھی دیوالیہ ہو سکتا ہے۔ اس صورتحال کا سب سے بڑا سبب دوسرے عوامل کے علاوہ سیاسی عدم استحکام کو قرار دیا جاتا ہے۔ اندرون ملک معاشی ماہرین، سیاسی دانشور، کاروباری طبقات اور میڈیا مبصرین ہی نہیں بین الاقوامی سطح پر بھی تجزیہ کاروں کی یہی رائے ہے کہ سیاسی استحکام آ جائے تو نہ صرف معاشی مسائل بلکہ اس سے جنم لینے والی دوسری مشکلات پر بھی قابو پانے کی راہ نکل سکتی ہے۔ لیکن بدقسمتی سے بزعم خود ملک کی سب سے بڑی پارٹی اور قائد اعظم سے خود کو منسوب کرنے والی اس کی حلیف جماعت سیاست میں ٹھہراؤ اور استحکام لانے کی کوششوں کو سبوتاڑ کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتیں۔ویسے تو وہ دعویٰ کرتی ہیں کہ انتخابات کرا دیئے جائیں تو سیاسی استحکام آسکتا ہے۔ اسی لئے وہ ملک میں قبل از وقت الیکشن پر زور دے رہی ہیں اور اسی مقصد کے لئے انہوں نے دو صوبائی اسمبلیاں توڑ کر آبادی کے لحاظ سے آدھے سے زیادہ ملک میں انتخابات کا موقع بھی پیدا کیا۔ لیکن اس عمل کو آگے بڑھنے سے روکنے کے لئے رکاوٹیں بھی کھڑی کررہی ہیں۔ دونوں صوبوں میں انتخابات کے لئے نگران وزرائے اعلیٰ کے تقرر کا معاملہ خیبر پختونخوا میں تو بخیر و خوبی طے پا گیا مگر پنجاب میں اپنی مرضی کا نگران مقرر کرانے میں ناکامی کے بعد اس نے ایجی ٹیشن اور مقدمے بازی کا راستہ اختیار کرنے کا اعلان کردیا۔ آئین نے نگران وزیر اعلیٰ کے لئے تین آپشن دیئے ہیں۔پہلے دو آپشنز میں فیصلہ نہ ہونے کے باعث معاملہ الیکشن کمیشن کے پاس چلا گیا جس نے محسن رضا نقوی کو نگران وزیراعلیٰ پنجاب مشاورت اور اتفاق رائے سے مقرر کردیا اور نوٹیفیکیشن بھی جاری کردیا۔ نامزد نگران وزیر اعلیٰ نے اتوار کو اپنے منصب کا حلف بھی اٹھا لیا۔ سنجیدہ حلقوں نے اسے ایک اچھا فیصلہ قرار دیا ہے۔ سابق صدر آصف زرداری کا کہنا ہے کہ نگران وزیر اعلیٰ سیلف میڈ انسان ہیں۔ تمام سیاسی جماعتوں سے ان کے اچھے تعلقات ہیں۔ کبھی الیکشن لڑا، نہ کسی سیاسی سرگرمی میں حصہ لیا۔ اپنی کارکردگی سے وہ جلد ناقدین کے منہ بند کردیں گے۔ جبکہ پی ٹی آئی کے قائد عمران خان نے فیصلہ مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ ہمارے ازلی دشمن ہیں۔ عمران خان کے حلیف چودھری پرویز الٰہی جن کے محسن رضا نقوی قریبی رشتہ دار بھی ہیں، نے کہا ہے کہ وہ متنازعہ شخص ہیں۔ پی ٹی آئی نے اس فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے کے علاوہ اس کے خلاف سڑکوں پر ایجی ٹیشن کا اعلان بھی کردیا ہے۔ بعض آئینی ماہرین کا کہنا ہے کہ نگران وزیر اعلیٰ کے تقرر کے معاملے میں الیکشن کمیشن کا فیصلہ حتمی اور آئین میں اسے چیلنج کرنے کی گنجائش نہیں۔ مسلم لیگ ن کے لیڈروں نے متنبہ کیا ہے کہ مخالفین کو ایسا کچھ نہیں کرنا چاہیے۔جس سے الیکشن مقررہ میعاد کے اندر نہ ہو سکیں اور آگے چلے جائیں۔ الیکشن کمیشن نے انہی ناموں میں سے ایک نام کا انتخاب کیا ہے جو صوبائی حکومت اور اپوزیشن نے پیش کئے تھے۔ اب واویلا کس بات کا؟ سڑکوں پر پی ٹی آئی کی ایجی ٹیشن یا عدالتوں میں معاملہ لے جانیکا کیا نتیجہ نکلتا ہے، اس کا فیصلہ تو وقت ہی کرے گا لیکن پنجاب اسمبلی کا الیکشن انعقاد سے پہلے متنازعہ بنا دیاگیا ہے۔ مبصرین کا خیال ہے کہ پی ٹی آئی نے اسمبلیاں توڑنے کی غلطی کی۔ اب ان کے انتخاب کو متنازعہ بنا کر ایک اور غلطی کر رہی ہے۔ اگر وہ ایجی ٹیشن کے ذریعے امن عامہ کا مسئلہ پیدا کرتی ہے تو ملکی معیشت جو پہلے ہی انتہائی کمزور ہے۔ مزید دھچکا برداشت کرنے کے قابل نہیں رہے گی۔ ایسے میں وفاقی حکومت صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات ملتوی کرنے میں حق بجانب ہوگی اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ کوئی غیر جمہوری حادثہ ظہور پذیر ہو جائے۔