(ڈاکٹر نوید الہیٰ)
مسیحائی اور بڑائی کا خناس جب دل و دماغ میں سماتا ہے تو رہنما پھسل کر گمراہی کے پاتال میں گر جاتا ہے۔ وہ سمجھتا ہے کہ وہ ہی ایسا مسیحا ہے جو عوام کے دکھوں کا مداوا کرنے کے لیے اتارا گیا ہے۔ وہ نہ رہا تو عوام رل جائے گی، ترقی رک جائے گی، ملک لٹ جائے گا۔ ایسے رہنما دہائیوں سے خود پارٹی کے سربراہ بنے بیٹھے ہیں یا اپنے اہلِ خانہ کو اس مسند پہ بٹھا دیتے ہیں۔ یہ کیا سمجھتے ہیں کہ ان کی پارٹی رجسٹرڈ لمیٹڈ کمپنی ہے؟ کاروبار ہے؟ اور کیا عوام بھیڑ بکریاں ہیں جن کو وہی ہانک سکتے ہیں؟ کیا وجہ ہے ان کی پارٹی کے باقی لیڈر سالہا سال کے تجربے کے باوجود اس قابلِ نہیں ہو پاتے کہ انہیں پارٹی کی باگ دوڑ دی جائے۔ باقیوں کو چھوڑیں، اس ذہنی بیماری کی شدت کا اندازہ اس امر سے لگائیے کہ اندازِ سیاست میں انقلاب کا داعی ایک مقبول رہنما خود روزِ اول سے اپنی پارٹی کا چیئرمین ہے اور اسکو اپنی سیاسی جدوجہد کا نام دیتا ہے۔
یہ آمرانہ انداز صرف اقتدار میں رہنے کا ڈھکوسلہ ہے۔ ایک دفعہ مسندِ رہنمائی پہ مسلط ہو جائیں تو موت ہی دورانیہ متعین کرتی ہے۔ بلا تفریق تمام بڑی سیاسی جماعتوں کے رہنما اس مرض میں مبتلا ہیں۔ یہ ایک ہی تھیلی کے چٹے بٹّے ہیں۔ ان کو ایک آنکھ میچ کر بغور دیکھیں تو تفریق کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔
عموماً انکا طریقہ واردات یہ ہے کہ یہ رہنما اپنی قوتِ کردار پہ نہیں مخالفین کی کردار کشی پہ ہی عوام کو بد ظن کرتے ہیں۔ دوسروں کی خامیاں نکال کر اپنا راستہ بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اور اکثر عوام انکے پیچھے لگ جاتی ہے کیوں کہ یہ چرب زبانی اور چالاکی سے ان کو متاثر کرتے ہیں۔ سادہ لوح عوام کو لفظوں کا رومال پھینک کر لوٹ لیتے ہیں۔ عوام کو ہوش آتی ہے تو وہ لٹ چکے ہوتے ہیں۔ الزام تراشی، جھوٹ اور مکر کو سیاست سمجھنے والے رہنما اس معاشرے کو تنزلی کے گڑھے میں دھکیلنے کے مؤجب ہیں۔ کیوں کہ رفتہ رفتہ یہی عادات عوام بھی اپنا لیتے ہیں۔