خیر طلبی (سرور حسین)
sarwar592@gmail.com
ملک کی موجودہ اقتصادی حالت نے عام آدمی کے ساتھ ساتھ ہر سفید پوش کا بھی بھرکس نکال کے رکھ دیا ہے۔مگر اس سے بھی زیادہ حیران کن بات اس سیاسی دنگل کی ہے جو کہیں تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہا۔عوام کی ذہنی سطح کی بلندی کا عالم یہ ہے کہ سندھ کے انتخابات میں پیپلز پارٹی نے ایک بار پھر اکثریت حاصل کی ہے جس سے مان لینا چاہیے کہ واقعی بھٹو زندہ ہے کہ دہائیوں سے سندھ کے وسائل کے سفید و سیاہ کے مالک ہونے کے باوجود نہ وہاں انفراسٹرکچر میں انقلاب آ سکا ، نہ لوگوں کا معیار زندگی بلند ہو سکا نہ ان کو شعوری سطح پر وان چڑھنے دیا گیا اور یہی شاید ان کے تسلسل سے کامیابی کی ضمانت ہے۔ کراچی جیسے بزنس حب اور ملک کے سب سے قیمتی شہر میں ابھی تک کوڑا کرکٹ کے ڈھیر تک اٹھانے کا انتظام نہیں ہو سکا ، پینے اوراستعمال کا پانی بھی لوگ قیمتاً خریدنے پر مجبور ہیں تو سندھ کے دوسرے شہروں اور خاص طور پہ اندرون سندھ کی زبوں حالی پر تو بات کرنا ہی اب نامناسب لگتا ہے۔
حالیہ انتخابات میں جماعت اسلامی کی دوسری بڑی جماعت کے طور پر کراچی کی سطح پر کامیابی ایک نئی تبدیلی ہے۔وہاں جماعت کے لوگوں کے کیے گئے کام اور ایم کیو ایم کی عدم موجودگی اس کی وجہ ہو سکتی ہے لیکن اسی کے ساتھ ٹی ایل پی کو بھی حالیہ رزلٹ سے بہت کچھ سیکھنے کی ضرورت ہے کہ انھیں اپنے انداز سیاست میں کس انداز کی انقلابی تبدیلیوں کی ضرورت ہے کہ ایک بڑی کمیونٹی جو ان کے ساتھ تیزی سے منسلک ہوئی تھی اس کو ان کے سیاسی کردار میں متحرک موجودگی کا احساس ہو سکے۔دوتہائی اکثریت اور سب سے مقبول جماعت کا تاثر رکھنے والی سیاسی قیادت کا یہاں پر تیسرے نمبر پر آنا بھی ان کے لیے سوالیہ نشان ہے جنہوں نے اسے وہاں کی مقامی قیادت کے منظم نہ ہونے کے سر ڈال دیا ہے۔دوسری طرف پنجاب کی سیاست بھی ایک معمہ بن کر تبدیل ہوئی ہے جس میں اعتماد کا ووٹ لینے کے بعد اسمبلی کو توڑ دیا گیاہے جس کا جواز اور وجوہات یقیناً ایسا کرنےو الوں کے پاس ہوں گی لیکن اگر ملکی حالات کی موجودہ صورت حال کو دیکھا جائے تو معاشی ابتری کے اس سیلاب میں سیاسی عدم استحکام کا ریلا بھی شامل ہو گیا ہے جس سے حالات ایک نہ سنبھلنے والے معاملے کی طرف بڑھتے دکھائی دے رہے ہیں۔