خیر طلبی
سرور حسین
sarwar592@gmail.com
حکومت کی طرف سے ایک بار پھردکانوں اور کاروبار کو جلد بند کرنے کا اعلان کیا گیا ہے۔ نہ تو یہ حکم نامہ نیا ہے اور نہ ہی اس پر آنے والا رد عمل کوئی غیر معمولی، جس سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ہمارے اندر نہ تو مسائل سے نپٹنے کا کوئی ٹھوس اور مربوط لائحہ عمل ہے اور نہ ہی ان کو حل کرنے کیلئے کوئی ایساایجنڈہ کہ جس کو عملی جامہ پہنا کر ہم کسی ایک نتیجے پر پہنچ سکیں اور کوئی ایک مسئلہ تو ختم کرنے کے قابل ہوں۔ چند ماہ کے بعد ایسے اعلانات سوائے بیٹھے بٹھائے مسائل کے انبار میں ایک نئے مسئلے کو پیدا کرنے کے سوا اور کچھ نہیں جو ہماری انتظامی نااہلی اور معاملہ فہمی سے عاری ہونے کی نشانی ہے۔ ہم ہر مسئلے کو انتظامی طاقت سے حل کرنے کے درپے ہیں جس سے معاشرے میں طبقاتی خلیج بڑھتی جا رہی ہے۔ اس وقت چونکہ کسی بھی ایک سیاسی جماعت کی حکومت نہیں ہے اس لیے صوبائی حکومتیں مرکز کے احکامات پر عمل کرنے میں سنجیدہ نہیں اور یوں ہر حکم الگ سے جگ ہنسائی کا سبب بن رہا ہے۔ حکومت کے فیصلہ ساز پہلے سے مسائل میں گھری ہوئی حکومت کےلیے مزید رکاوٹیں کھڑی کرتے چلے جا رہے ہیں۔ جب بھی اس بات کا اعلان کیا جاتا ہے تو سب سے بڑی دلیل یہی دی جاتی ہے کہ پوری دنیا میں کاروباری مراکز رات کو جلد بند ہو جاتے ہیں۔ کسی بھی معاملے میں ترقی یافتہ ممالک کی مثال دینے سے پہلے ہمیں سو مرتبہ اپنے معاشرتی احوال پر نظر کرنے کی ضرورت ہے کہ اگر وہاں دکانیں اور کاروباری مراکز جلد بند ہو تے ہیں تواس کے لیے ان کو چند ماہ بعد کسی ایسے اعلان کی ضرورت ہرگز پیش نہیں آتی بلکہ انہوں نے پہلے سے ایسا سسٹم ترتیب دیا ہوا ہے جس کے سبب پورا معاشرہ تربیت یافتہ ہے جس کے نتیجے میں کاروبار کرنےو الوں کو بھی اپنے اوقات کار کا علم ہے، خریدار بھی اس کو فالو کرتا ہے اور کسی حکومتی ادارے کو اس کی آڑ میں رشوت بازاری کا موقع نہیں ملتا۔ وہاں نہ تو ٹیکس اہلکار سارا دن دکانداروں کی جیبیں ٹٹولتے ہیں، نہ کارپوریشن والے کسی کو آنکھیں دکھا کر اپنا حصہ وصول کرتےہیں اور نہ ہی کوئی اور حکومتی ادارہ سارا دن کاروباری لوگوں کو پریشان کرتا ہے۔ان قوموں نے اپنے افراد کی تربیت کی ہے، انھیں قانون کا احترام سکھایا ہے اور پورا معاشرہ اس کے ثمرات لے رہا ہے۔اس لیے یہ بات بہت ہی مضحکہ خیز ہے کہ ہم صرف یہ بات کریں کہ دنیامیں کاروبار جلد بند ہوتےہیں جبکہ اس کا ذکر نہ کریں کہ وہ ایک سسٹم کے تحت کھلتے کتنے بجے ہیں اور ہر کوئی اپنے اپنے دائرے میں رہ کر کام کرتا دکھائی دیتا ہے۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم معاشرتی اصلاح اور سسٹم بنانے کی بجائے انسانوں سے جانورں جیسا سلوک شروع کرتے ہوئے ۔اس عمل سے پولیس کے ذریعے ہراساں کرکے رشوت خوری کا نیا دروازہ کھول دیا جاتا ہے۔ کاروباری مراکز کو جلد بند کرنے میں سب سے بڑی دلیل انرجی سیونگ کی دی جاتی ہے کہ یہ عمل بجلی کی بچت کےلیے از حد ضروری ہے۔اب جب کہ پورے ملک میں سردی کا موسم ہے انرجی کنزیومنگ پراڈکٹ ائر کنڈیشنز کا استعمال سرے سے ہے ہی نہیں تو کیا حکومت کے پاس ان لوگوں کے لیے جن کی کمر ٹیکسوں اور بلوں نے دوہری کر رکھی ہے اتنی بجلی بھی نہیں کہ وہ اتنی بچت کے موسم میں بھی دو تین گھنٹے بازاروں کو روشن رکھ سکے۔یہ معاملہ اگر سخت گرمی میں اٹھایا جائے تو تب بھی سمجھ میں آتا ہے لیکن اس وقت اس پر زور دینے کو ناعاقبت اندیشی ہی کہا جا سکتا ہے۔ ایک اور بہت بڑا مسئلہ یہ بھی ہے کہ اکثر مارکیٹوں میں کام کے اوقات بھی غیر اعلانیہ لوڈ شیڈنگ اور سارا دن بجلی ہی میسر نہیں ہوتی ۔ یعنی آپ کام کے اوقات میں بھی مکمل بجلی کی سہولت فراہم نہ کریں اور پھر جلد بند کرنے کو بھی کہیں تو اسے آپ خود ہی کوئی نام دے سکتے ہیں کہ اسے کیا کہا جائے۔ایسے لوگ جن کا کاروبار ہی بجلی سے منسلک ہے وہ دن بھر ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہتے ہیں اور جب کام شروع ہوتا ہے تو پولیس بند کروانے پہنچ جاتی ہے۔ کسی بھی حکم کی عملداری کے لیے معاشرتی رویوں کو سمجھنا بہت ضروری ہے۔اب جب کہ ہمارے ہاں دیر سے دکانیں کھلنے اور تاخیر سے بند ہونے کا ایک کلچر دہائیوں سے عام ہو چکا ہے تو اسے کسی بھی انتظامی حکم سے ہینڈل کرنے کو دانشمندی نہیں کہا جا سکتا ۔ اور سب سے ضروری بات یہ ہے کہ یہی کاروباری حلقے ہیں جو اپنے ٹیکسوں کے ذریعے پوری حکومتوں کا بوجھ اپنے کندھوں پر اٹھائے ہوئے ہیں۔بجلی کے ہوشربا بلوں کی صورت میں جس بے دردری سے ان کا خون نچوڑا گیا انھیں یہ مت بتایا جائے کہ دنیا میں کاروبار جلد بند ہوتے ہیں بلکہ حکومت کو کوئی یہ بھی بتائے کہ وہاں شہریوں اور کاروباری طبقے کو کیسی کیسی سہولتیں اور آسانیاں فراہم کی جاتی ہیں ۔وہاں ٹیکس دینے والوں کے حقوق پر کوئی ڈاکہ نہیں ڈالتا ۔ کوئی پولیس اہلکار جس کو تنخواہ بھی ایسے ہی ٹیکس دینےو الوں کے پیسوں سے جا رہی ہوتی ہے اسے کالر سے پکڑ کر پولیس کی گاڑی میں رشوت لینے کے لیے نہیں بٹھاتا جس کا جرم یہ ہے کہ وہ لوگوں سے کیے ہوئے وعدے کے مطابق اپنا کام کام مکمل کر نے کی کوشش کر رہا ہے۔معاشرتی و ذہنی اصلاح، قانون کی حکمرانی اور ناجائز ٹیکسوں کا بوجھ کم کیے بغیر ایسے حکمنامے ایسے ہی انتشار اور نفسیاتی دباؤ کا سبب بنتے رہیں گے لیکن عوام کے کندھوں سے یہ بوجھ تو تب کم ہو گا جب مراعات یافتہ اشرافیہ ، صاحبان اقتدار اور حکومتی ادارے اپنے اخراجات کم کرنے کے بارے میں سوچیں گے ۔